Duration 4:58

Abu ubaidah Tomb | ابو عبیدہ بن جراح کا مزار مبارک Qatar

280 watched
0
16
Published 22 Apr 2021

ابوعبیدہ ابن الجراح جنہیں دربار رسالت سے امین الامت کا خطاب ملا قبیلہ فہر سے متعلق تھے۔ جو قریش کی ایک شاخ تھی۔ اصل نام عامر بن عبد اللہ تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت عمر 40 سال تھی۔ بالکل ابتدائی زمانے میں مشرف باسلام ہوئے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح ابتدا میں قریش کے مظالم کا شکار ہوئے۔ حضور سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے لیکن مکی دور ہی میں واپس لوٹ آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چند روز قبل اذن نبی سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور حضور کی آمد تک قبا میں قیام کیا۔ مواخات مدینہ میں معزز انصاری صحابی ابوطلحہ کے بھائی بنائے گئے۔ بے مثال خدمات اسلام کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن صحابہ کو دنیا میں جنت کی بشارت دی ان سے ایک ہیں۔ ابوعبیدہ ابن الجرح بے حد ذہین۔ سلیم الطبع، متقی اور بہادر تھے۔ لمبا قد، بظاہر لاغر کمزور نظر آنے والی شخصیت لیکن ایمان کامل کے سبب انتہائی پرنور چہرہ اور آہنی عزم کے مالک تھے۔ ابوعبیدہ بن الجراح نے اپنے زمانے کے سب سے بڑی عالمی طاقت روم کے خلاف ٹکر لی اور اسے ایشائی علاقوں سے پیچھے دھکیل دیا۔ ابوعبیدہ کو اپنی عظمت کردار اور زہد و تقوی اور صلاحیتوں کی وجہ سے اہل مدینہ میں بہت اثر و رسوخ حاصل تھا۔ اسی وجہ سے آپ ان تین افراد میں سے تھے جنھوں نے سقیفہ بنو ساعدہ میں انتشار کی لہروں کو روکا اور آپ کی تجویز و تائید سے ابوبکر صدیق خلیفہ بنے۔ حضرت عمر فاروق کو آپ پر اس حد تک اعتماد تھا کہ ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد جب انہیں خلیفہ کی تلاش تھی تو آپ نے فرمایا ’’اگر ابوعبیدہ زندہ ہوتے توانہیں خلیفہ بناتا کیونکہ حضور نے انہیں امین الملت قرار دیا تھا۔ ‘‘ عہد فاروقی میں چند سال تک شام کے لشکر کی قیادت خالد بن ولید کرتے رہے۔ لیکن کم و بیش پانچ سال بعد 17 ھ میں فاروق اعظم نے خالد بن ولید کو ابوعبیدہ ابن الجراح کے ماتحت کر دیا۔ قیادت کی ان تبدیلیوں سے جہاد کے مقاصد کے حصول اور مہمات کی تربیت و کامرانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس کا بہت بڑا سبب ابوعبیدہ بن الجراح کا وہ منجھا ہوا انداز قیادت تھا جس کی وجہ سے وہ دوسری پوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اپنی صائب رائے پیش کرتے۔ اس پر عمل کرتے اور کرواتے اور اپنے ساتھیوں کا بھرپور تعاون حاصل کرتے۔ خالد بن ولید بھی ان کی شخصیت اور صلاحیتوں کے مداح تھے اور آپ کی پر کشش شخصیت اور سادہ اور پروقار زندگی ایک طرف رومیوں کے سفیر کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرنے والی تھی تو دوسری طرف سرفروشان اسلام کو عزم جہاد دینے والی۔ ابوعبیدہ ابن الجراح جنگ یرموک کے فاتح ہیں جس نے ہرقل شاہ روم کو شام چھوڑنے پر مجبور کیا۔ بیت المقدس کے فاتح ہیں جو دینا کا عظیم روحانی مرکز ہے۔ آپ نے بیت المقدس میں پہلی نماز وہاں پڑھی جہاں آج کل مسجد اقصیٰ ہے۔ ابوعبیدہ فتح شام کے بعد شام کے پہلے گورنر تھے۔ وہ جرنیل بھی تھے۔ اچھے منتظم بھی اور دین اسلام کے مبلغ بھی تھی۔ فاتح شام اور فاتح بیت المقدس کی شان فقر کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب فاروق اعظم بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے بھائی ابوعبیدہ بن الجراح سے فرمائش کرکے ان کے ہاں کھانا کھایا جس میں صرف چند سوکھے ہوئے ٹکڑے تھے جن کو ابوعبیدہ پانی میں بھگو کر کھایا کرتے تھے۔ حضرت عمر نے فرمایا ’’شام میں آکر سب ہی بدل گئے لیکن ابوعبیدہ ایک تم ہو کہ اپنی اسی وضع پر قائم ہو۔ ایک اور موقع پر فاروق اعظم نے آپ کے بارے میں فرمایا : ’’الحمد اللہ مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی نظر میں سیم و زر کی کچھ حقیقت نہیں۔ امین الملت کی زندگی کا آخری معرکہ حمص کی وہ خونریز جنگ ہے جس میں ہرقل نے شام واپس پلٹنے کی آخری کوشش کی لیکن ناکام ہوا اور اس کے بعد اس نے کبھی شام کا رخ نہ کیا۔ ھ18 میں مسلمانوں کے لشکر میں طاعون کی وبا پھوٹ نکلی جسے عمواس کی طاعون کہا جاتا ہے۔ اس موذی وبا نے بہت سے مسلمانوں کی جان لے لی ان میں سے ایک سپہ سالار اعظم امین الملت ابوعبیدہ بھی تھے۔ جن کو عمر فاروق نے مدینہ واپس بلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ’’ میں مسلمانوں کی فوج میں ہوں اور میرا دل ان سے جدا ہونے کو نہیں چاہتا۔ ‘‘ اس طرح اٹھاون برس کی عمر میں یہ تاریخ ساز شخصیت مالک حقیقی سے جا ملی ۔

Category

Show more

Comments - 2